This Platform is undergoing advancement program.Thereby we are currently not taking up/accepting any article for publishing.Thanks for your Co-operation.

اصل ترقی ذہن کی پختگی ہے

 ہمارے یہاں ترقی کو بہت محدود دائرے میں سمجھا گیا ہے یا پھر آج بھی سمجھا جاتا  ہے۔ شاہراہیں، بڑی بڑی عمارتیں، بجلی کے اونچے کھمبے، پانی کی چوبیس گھنٹے سپلائی، تعلیمی اداروں کی بھرمار، ریلوے کی پختگی، وغیرہ کو یہاں ترقی کا نام دیا گیا ہے۔ زمینی سطح پر یہ واقعی ترقی کی نشانیاں ہیں۔ جتنا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہوگا، اتنا ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ مغربی ممالک  میں بنیادی ڈھانچہ کی مضبوطی کی وجہ GDP  میں خاصہ اضافہ ہوتا ہے اور خوشی اور اطمینان کے ہندسے اڑان بھرتے ہیں۔ بیماریوں کا بھی تدارک ہوتا ہیں اور لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی نہیں آتی ہے۔ لوگ حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور اس طرح ہر سو خوشی ہوتی ہے۔ مشاہدہ کرنے والے باہری چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں اور تعریفوں کے پھول نچھاور کرتے  ہیں۔

        اس  کے برعکس اس ترقی کے پیچھے آنکھوں سے اوجھل وہ چیز  ہے جس پر پورے ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس سے باقی شعبوں میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ باکمال وصف  ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی ہے۔ یہ ڈھونڈنے سے بھی حاصل نہیں کئی جاسکتی ہے۔ یہ ہے ذہنی پختگی۔ دوسرے الفاظ میں intellectual development۔   ہاں! یہ وہ نایاب خاصیت ہے جو ان آسمان کو چومتی ہوئی عمارتوں کی اصل وجہ ہے۔ جب ذہن کے سارے دروازے کھلتے ہیں تو پھر زمیں پر ترقی ڈھونڈنے لگتی ہے۔ جب انسان اپنے دماغ اور دل سے سوچتا ہے، تو پھر تہذیب کے آخری پائیدان پر پہنچنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بہت سارے ممالک میں شاندار سڑکیں اور عمارتیں تو ہیں، مگر rationality کا فقدان ہے۔ وہ رنگینیوں میں رنگے ہوۓ ہیں۔ البتہ ان کے اذہان تاریکیوں میں ہے۔ ان کے یہاں اجسام پر خوبصورت ملبوسات زیب تن ہیں مگر اندر پھٹے پرانے وجود ہیں۔ وہ اپنے آپ کو عطار کی دکانوں سے مختلف عطر منگواتے ہیں اور سارے ماحول کو معطر کرتے ہیں، لیکن ان کے اندر کی دنیا میں ایسی بدبو ہے جو کسی بھی عطر سے رُو نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ ان ممالک کا ہے جہاں کے حکمران اور لوگ دونوں dark میں جی رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر inner darkness کا چشمہ چڑھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کو چیزوں کا باہری حسن نظر آتا ہے۔ ان کو صرف باہری رنگوں سے واسطہ ہیں۔ رہا سوال چیزوں کے اندر جھانکنے کا تو یہ لفظ ان کی لغت میں نہیں ہے۔ ان کے دیکھنے کے زاویے ہی ایسے ہیں کہ ان کو اتنا ہی دکھتا ہے جتنا دیکھنے کی وہ طاقت رکھتے ہیں۔

        ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے یہاں ہر معاملہ باہری ساخت کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اچھی نوکری، اونچا مکان، خوبصورت خاوند یا بیوی، گاڑی، بینک بیلنس،  زمین، کارخانے، وغیرہ کا نام ہی زندگی اور ترقی ہیں۔ جس کے پاس یہ سب ہے، وہ سماج کا سب سے اعلیٰ فرد ہے۔ اس کی عزت کرنا نعوذبااللہ فرض ہے۔ اس کا فیصلہ پتھر کی لکیر جیسا ہے۔ اس کے برعکس جس کے پاس یہ سہولیات نہ ہو، وہ انسان کہنے کے لائق بھی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔  اس مضمون کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ مانا کہ جو کسی عہدے پر فائز ہے وہ کسی حدتک کامیاب ہے۔ جو ہمارے لئے قوانین ترتیب دیتے ہیں وہ بہتر حالت میں ہے۔ مگر اس کا  ہر گز یہ  مطلب  نہیں  ہے کہ اس کی عدم موجودگی  کی وجہ  سے کسی انسان کو ہم اناڑی سمجھے۔ صد فیصد امکان ہے کہ ایسا انسان اعلیٰ سوچ رکھتا ہو اور چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کے پاس ایسا ہنر موجود ہوسکتا ہے جو ان دولت مندوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔

      اصل میں بعد الذکر انسان کی ترقی اصل ترقی ہے۔ یہاں جینے کے لئے کھانا، پانی، گھر، کپڑے، دوائیاں وغیرہ چاہئے۔ اس کے علاوہ اگر باقی ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔  ان میں  سے بیشتر  چیزیں جانوروں کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہم کامیابی کو زیادہ کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے جتنی مادی چیزیں زیادہ ہونگی، اتنی ترقی زیادہ ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ بات چین میں لاگو ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ وہاں ترقی کا مطلب ہے لوگوں کے اذہان کی ترقی۔ یعنی وہاں پر جو ترقی پائی جاتی ہے، وہ اصل میں اذہان کی ترقی سے ممکن ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس جو ترقی ہمارے یہاں پائی جاتی ہے، اس میں صرف مادی چیزوں کی ترقی ہے۔ اذہان کی ترقی اس میں شامل نہیں ہے۔ چین میں شاہراہوں کے ساتھ ساتھ دماغ کی شاہراہیں بھی مکمل ہیں۔ وہاں پر عقل والے حکومت کرتے ہیں۔ یعنی جو جس کام کا اہل ہے وہ اسی کام میں مصروف ہے۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہاں جو لوگ at the helm of affairs ہیں وہ دانا اور بینا ہیں۔ ان کے یہاں rationality  پائی جاتی ہے۔ اب اگر وہ کوئی چیز تعمیر بھی کرتے ہیں تو وہ قابل تحسین ہے۔

    اس  کے برعکس ہماری عمارتوں اور دوسری اشیاء کو ہی کل ترقی مانا جاتا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے۔ جب قابل لوگ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بنانے میں لگ بھگ سارا رول نبھاۓ، تب جاکر اس ملک کے ترقی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کر ملک کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ ان اداروں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں جو ملک کے لئے ریڑھ کی کی ہڑی کا کام کرتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور کاونسلنگ جیسے شعبوں میں وہ اعلیٰ دماغوں کو بروئے کار لاکر ملک کی بنیاد اور مستحکم کرتے ہیں۔ اس سے اعلیٰ اذہان پیدا ہوتے ہیں اور جو ملک کا کل سرمایہ ہے۔ اگر چھوٹے الفاظ میں کہا جاۓ جہاں پر human development  پر کام ہوتا ہے وہ اصل ترقی ہے۔ Human development باہر سے بھی اور اندر سے بھی ہونی چاہئے۔ اصل میں ترقی اندر سے باہر کی طرف بہتی ہے۔ پختہ اذہان اور صبر جیسی خصوصیات ہی ایک ملک کی دولت ہیں۔ 

      اگر ہم بھی اصل ترقی چاہتے ہیں، تو ہمیں بھی انسانی اذہان پر کام کرنا چاہیے۔ اعلیٰ یونیورسٹیاں بنانے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ہاں! تب کچھ پھل نکل کر آسکتا ہے۔ Human resources  development  پر جتنا کام ہوگا،  اتنا ہی بہتر ہے۔ جیسے  اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جب تک نہ ملک کے لوگوں کے دماغ تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہوجائے، تب تک حقیقی ترقی سراب ہے۔ موجودہ زمانے میں جینے کے لئے سطحی سوچ سے اوپر اٹھنا ضروری ہوگیا ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ حقیقی ترقی کو پانے کی کوشش کرے۔ ہر چمکنے والی  چیز سونا نہیں ہوتی، کے مصداق ہمیں اب جاگ جانا چاہیے۔ چیزوں کی باہری ساخت سے متاثر  ہونے سے بہتر ہے کہ ہم گہرائی میں جھانکے اور جو جس منصب کے لئے موزوں ہیں، اس کو وہ رتبہ دیا جائے۔ تعمیر اذہان سے شروع ہوتی ہے اور ملک کی ترقی پر ختم۔ اس کی شروعات ہمارے  گھروں سے ہونی چاہیئے۔ اس کے بعد ہم اسکولوں اور دیگر اداروں میں اس  کو   عملا  سکتے ہیں۔ ہر کسی کو اس میں اپنا تعاون دینا ہوگا۔ اور جاتے جاتے یہ کام  وقت مانگتا ہے اور ہم وقت دینے کے لئے تیار ہونے چاہئیں۔

Written by,

Syed Mustafa Ahmad 

This content is authored by an external agency. The views expressed here are that of the respective authors/ entities and do not represent the views of Yemberzal. Yemberzal does not guarantee, vouch for or endorse any of its contents nor is responsible for them in any manner whatsoever .